* بیتاب ہو رہا ہوں دل میں تمہیں بسا ک *
بیتاب ہو رہا ہوں دل میں تمہیں بسا کے
جائو نہ اب خدا را دردِ جگر بڑھا کے
تقدیر میں مری جب کوئی دیا نہیں ہے
دنیا کرونگا روشن دل کو جلا جلا کے
وہ سامنے ہمارے موجود ہر گھڑی ہے
چاہو تو دیکھو لو تم ہستی ذرا مٹا کے
قائم ہے زندگی جب زخموں کی تازگی سے
دردِ جگر بڑھا دو نشتر چبھا چبھا کے
تم کو نہیں توقع مجھ سے اگر وفا کی
ثابت قدم رہوں گا دیکھو تو آزما کے
نکلے گا اب نہ منہ سے لفظِ اَنا ہمارے
بہکے نگے ہم نہ ہرگز دیکھو کبھی پلا کے
مرشد نے جو دیا ہے تجھ کو علوم رُشدی
نامحرموں سے مضطرؔ رکھنا چھپا چھپا کے
********** |