donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Muztar Iftekhari
Poet
--: Biography of Muztar Iftekhari :--

 Muztar Iftekhari 

 

 
زندگی نامہ
 
نام : محمد خورشید عالم
قلمی نام : مضطر افتخاری
والدین : (مرحوم) عبد الرّزاق: طاہرہ بی بی
نصف بہتر : سعیدہ پروین
اولادیں : آفاق خورشید، احتشام خورشید، عرفان عالم، شہود عالم، سہیل خورشید، 
یاسر خورشید، عاطف خورشید، شازیہ خورشید
پیدائش : 8؍جنوری1953ء
آبائی وطن : جون پور یوپی، وطن ثانی کولکتا
تعلیم : Bsc(بائیوکیمسٹری) گروداس کالج ،کلکتہ یوینورسٹی
مشغلہ : تجارت
موجودہ  پتا معرفت اے کے میڈیکل
: 170؍کیثب چندرسین اسٹریٹ کولکتا 700009 
فون نمبر : 033 -64575342, 09433417042
ای میل : muztriftekhari@rediffmail.com
 
 ادب کے افق پر دمکتا ستارہ مضطرؔ افتخاری 
 
غزل! دریا کو کوزے میں بند کر نے کا فن ہے اگر ! شاعر کو فن پر کمال حاصل ہے تو وہ ایک شعر میں اس طرح مضمون آرائی کرتا ہے کہ اس کی تشریح میں ورق کے ورق سیاہ کئے جاسکتے ہیں لیکن یہی خو بی اس کی سب سے بڑی عیب بن گئی اِسے ’’نیم و حشی صنفِ سخن‘‘ کا طعنہ سننا پڑا اور ریزہ خیالی کا داغ سہنا پڑا اس کے باوجود یہ اُردو زبان و ادب کی آبرو بنی رہی ۔ تقریباً ہر چھوٹے بڑے شاعر نے اس صنف سخن پر طبع آزمائی کی اور بقدر ظرف وذوق اسے نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش کی۔ ادبی محفلیں ہوں یا سیاسی جلسے ، مذہبی تقریب ہو یا معاشرتی، اجتماع ، ہر جگہ غزل کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ۔
اس وقت میرے سامنے مضطرؔ افتخاری کی منتخب غزلوں کا مسودہ ہے جس کی اشاعت عنقریب ہونے والی ہے ۔ مضطر افتخاری سے میری واقفیت بہت زیادہ نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھی ادبی محفلوں میں انکو سننے کا موقع ملا ہے اور ادبی رسالوںاخباروں میں ان کا کلام نظر سے گذرا ہے۔جب جستہ جستہ مسودہ کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ مضطر افتخاری عام فہم زبان میں صفائی وسادگی کے ساتھ اپنے احساسات و خیالات کے اظہار کا ہنر جانتے ہیں یہ جادۂ غزل کے ایسے راہر وہیں جو نئے جہانوں کی سیر کا حوصلہ رکھتے ہیں ، یہ حوصلہ انہیں ہر لمحہ گرمِ سفر رکھتا ہے اور منزل پر پہنچنے کی دھن میں انکا قدم رواں دواں رہتا ہے ۔ اس حوصلے کے نتیجے میں جو اشعار سامنے آتے ہیں ان کے مفہوم تک پہنچنے میں قاری کودماغی جمنا سٹک کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ مضطرافتخاری کی زبان میں شگفتگی اور بیان میں سائستگی ہے، درج ذیل اشعار میرے خیال کی تائید کر ینگے ۔
 
سنائوں کیا تمہیں دل کی کہانی
سمجھ لو آئینہ ٹوٹا ہوا ہے
دیر و حرم میں ڈھونڈ رہے تھے جسے سدا
اپنے ہی گھر میں ان سے ملاقات ہو گئی
پانی پانی جو سب کو کرتا تھا
آج اس کا اتر گیا پانی
ایسے جیتے ہیں لوگ بستی میں
جیسے کیڑے گڑ میں رہتے ہیں
تھے جتنے بھی سنگ ملامت وہ سب
مرے سر کی جانب اچھالے گئے
خواہشِ خلد ہو بندگی میں اگر
وہ تجارت ہے مضطرؔ عبادت نہیں
مانا کہ نہیں ہوں میں ترے قد کے برابر
لیکن یہی کیا کم ہے ترے ساتھ کھڑا ہوں
 
مضطرؔ افتخاری انفرادی طور پر اپنی سخن گستری کے اسلوب میں کسی نظر ئیے کے قائل نہیں ہیں اس ضمن میں ان کی ادبی تحریکوں سے وابستگی تو رہی اس کے باوجود زندگی اور زندگی کے گونا گوں مسائل کو فراموش بھی نہیں کرتے لہٰذا زمانۂ گردش کا پورا احاطہ کرتے ہوئے صاف ستھری زبان میں سلیقگی و شائستگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار بقدر شاعری کرتے ہیں اس لئے ان کے اشعار میں ماحول کی تصویر یں اور معاشرے کی تمام تر جھلکیا ں جابجا نظر آتی ہیں جو ہمیں دعوتِ غور و فکر دیتی ہیں۔
 
کام آخر آگئیں بیساکھیاں
مرتبہ مل ہی گیا سرکار سے
باد صرصر کی طرح آکے گزر جاتے ہو
بس ادھوری سی ملاقات کرو ہو تم تو
کسی اہل ہنر کی بے بسی تم پوچھتے کیا ہو
سفارش کی عدالت میں لیاقت ہار جاتی ہے
یہ کچی عمر کی بچّی کسی کے کارخانے میں 
سہاگن کے لئے کیوں رات دن چوڑی بناتی ہے
بے وفائی، ستم، فریب ہر لمحہ
یہ وفا کامری جواب ہے، کیا ہے؟
 
مضطرؔ افتخاری کی غزلیں اگر ایک طرف عصر حاضر کی شکست ور یخت اور حزن وملال کی آئینہ دار ہیں تو دوسری طرف مستقبل کی بشارتوں اور کامرانیوں کا اشاریہ بھی۔ ابھی انکا تخلیقی سفر جاری ہے اگر انہوں نے اپنے اس ادبی سفر میں ذہن و دماغ کے دریچے کھلے رکھے اور راہ کے بے رنگ و بارنگ مناظر کو خوش سلیقگی اور خود اعتماد ی کے ساتھ اپنے شعری آئینہ خانے میں سجاتے رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ فردوس نظر نہ ہوں میں اس یقین کے ساتھ اپنی نیک خواہشات سے انکا خیر مقدم کرتا ہوں کہ انہیں ابھی اور آگے جانا مزید منزلیں سر کرنا ہے ۔ 
 
علقمہ شبلیؔ
۲؍مئی   ۲۰۱۱  ؁ء
 
 مضطرؔ افتخاری کی شعری جہات 
 
اُردو اپنی مرکز گریزیت کے سبب کسی ایک علاقے تک محدود نہ ہو کر عالمی سطح پر پھیلنے لگی ہے۔ دبستانِ دلّی اور دبستانِ لکھنؤ اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ جہاں اُردو کی نئی نئی بستیاں قائم ہونے لگی ہیں وہیں اُردو کے نئے نئے دبستان بھی معرضِ وجود میں آرہے ہیں ۔ ہندوستان میں اس وقت دبستانِ دکن کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے بعد یہ مرتبہ مغربی بنگال کو بھی حاصل ہوچکا ہے جس کا محور و مرکز شہر نشاط کلکتہ ہے ۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد ہی سے یہاں اُردو زبان و ادب کا جو سلسلہ چل پڑا تھا وہ آج بھی جاری و ساری ہے بلکہ اس میں مزید تیز رفتاری بھی آئی ہے ۔
 
مغربی بنگال کے ادبی منظر نامے میں شاعروں اور ادیبوں کی ایک کہکشاں اپنی ضیاپاشیوں سے پوری اُردو دنیا کو منور کر رہیں ہیں۔ اساتذہ میں اگر سالک لکھنؤی، علقمہ شبلی، قیصر شمیم، ناظم سلطان پوری کیف الاثر،اعزاز افضل، حبیب ہاشمی، ڈاکٹر معصوم شرقیؔ، منورراناؔ،شبیر ابروی ، انجم عظیم آبادی، محبوب انور جیسی ذی وقار شخصیتیں میدانِ ادب میں محرک ہیں تو وہیں ان کے شانہ بشانہ نئی نسل کے تازہ کار قلمکاروں میں عاصم شہنواز شبلی ، فراغ روہوی، ضمیر یوسف، کلیم حاذق، شہناز نبی، صدف جعفری، شگفتہ طلعت سیما، زرینہ زریں، فہیم انور ، نصراللہ نصر اور ان جیسے سیکڑوں شاعر ادیب اپنی فکری جو لانیوں کے جواز فرہم کر رہے ہیں ۔ ایسے ہی تازہ کا ر شعر ا میں ایک اہم نام مضطرافتخاری کا بھی ہے جو ادبی سطح پر انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ مشق ومزاولت کی بنا پر ایک قلیل عرصے میں انہوں نے اپنی تخلیقی بصیرت اور بالیدہ فکر وشعور کے وسیلے سے جس منزلِ عرفان تک رسائی حاصل کی ہے وہاں تک پہنچنے میں اچھے اچھے شاعر کے پرجل جاتے ہیں ۔
 
ان کا وطنِ مالوف مڑیاہوں َضلع جونپور(اتر پردیش) ہے۔ یہ قدیم بستی دینی وادبی اعتبار سے ہمیشہ مردم خیز رہی ہے جہاں محدثین وفقہائے عظام،حکماء اور اساتذہ علم وفن کے علاوہ ادباء و شعرا ہر دور میں دینی، ملی اور ادبی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔ اسی بستی کے ایک دینی خانوادے میں مضطرافتخاری نے آنکھیں کھولیں۔ والدِ محترم جناب عبد الرزاق مذہبی خیالات کے حامل تھے اور صاحبانِ کشف وکرامات کی صحبت سے فیض اٹھا چکے تھے۔ اس لئے ان کا گھر یلو ماحول سراسر دینی و مذہبی ہے ۔ اس ماحول میں پرورش و پرداخت کے سبب مضطر افتخار ی نے مثبت اثرات قبول کئے ہیں جس کی گہری چھاپ ان کی شاعری میں دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ان کی شاعری صحت مندروایات ، فکری طہارت اور فکر اسلامی سے عبارت ہے۔
 
1979ء سے وہ شعری سفر پر گامزن ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں پر محیط اس سفر کے دوران انہوں نے جو غزلیں کہی ہیں ان کا انتخاب’’اعراف‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ غزل ان کی پسند یدہ صنف ہے مگر حمد نعت اورنظم نگاری میں بھی ان کی تخلیقی شادابیاں نظر آتی ہیں۔ میرے سامنے اس وقت ان کی جو چند غزلیں ہیں ان کے مطالعہ سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انہیں روایت کی پاسداری عزیز ہے ۔ تاہم تازہ ہوائوں کے لئے بھی ذہن کا دروازہ کھلا رکھا ہے جس کے سبب ان غزلوں میں عہد حاضر کی دھڑ کنیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ اس اکیسویں صدی میں جو شاعری ہورہی ہے اس کا بیشتر حصہ وجودی مسائل کا اظہار یہ ہے ۔ آج کے معاشرے میں اقداری شکست وریخت ایک ہوشمندر اور باشعور انسان کے لئے لمحۂ فکر یہ سے کم نہیں۔ معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی ڈھانچوں نے انسان کو صار فانہ ذہنیت عطا کر کے اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ اسے ہمیشہ اپنے مفاد کی فکر رہتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر انسان کا خون سفید ہوچکا ہے ۔ محبت وہمدردی بازار کی ایک جنس (Commodity)بن چکی ہے اور تیزی سے سکڑتی اس دنیا میں انسان سے انسان کی دوریاں بڑھنے لگی ہیں۔ مفاد پرستی کا ایک نمونہ آپ بھی دیکھیں کہ کس طرح شاعر نے اسے ذاتی کیفیت بنا کر پیش کیا ہے   
 
رکھتے ہوپیش نظر فائدہ اپنا مضطرؔ
خوب یہ قوم کی خدمات کرو ہو تم تو
 
پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ دینی ماحول میں انہوں نے پرورش پائی ہے اسی لئے خیال اور موضوع کی سطح پر ان کی شاعری میں اسلامی تہذیب وتمدن کے روشن نقوش مرتب ہوئے ہیں۔ ان کے یہاں ایسے متعدد اشعار مل جاتے ہیں جن میں فکر ی طہارت، صالح قدروں کی پاسداری اور ایمان وایقان کی قند یلیں روشن ہیں۔ اس قبیل کے چند اشعار پیش ہیں   
 
جب رگِ جاں میں خود ہی وہ موجود ہے 
دربدر اس کو ڈھونڈوں، ضرورت نہیں 
خواہشِ خلد ہو بندگی میں اگر
وہ تجارت ہے مضطرؔ عبادت نہیں
دکھا کر اک جھلک تونے کیا بے ہوش موسیٰ کو
اگر پردہ ترے رخ سے ہٹا ہوتا تو کیا ہوتا
جھوٹ کے سرپہ دستار رکھتے ہیں سب
سچ کی کوئی بھی کرتا حمایت نہیں
ہرایک دل میں رہوں بعدِ مرگ زندہ میں
خلوص ومہر کے سانچے میں ڈھال دے مجھ کو
 
مضطرؔ صاحب اگر چہ سائنس کے آدمی ہیں اور بائیو کیمسٹری ان کا موضوع رہاہے لیکن بچپن ہی سے انہیں اُردو زبان وادب سے گہر ا لگائو رہا ہے ۔ پھر مطالعہ بھی کافی وسیع ہے جس کے سبب اُردو شعرو ادب میں بدلتے ہوئے رجحانات اور تحریکات سے بخوبی آشناہیں۔ ان تحریکات سے اثرات بھی قبول کئے ہیں ۔ چنانچہ ان کی شاعری میں اگر ایک طرف کلاسیکی رچائو ہے تو دوسری طرف ترقی پسند ی وجدید یت کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں بنا بریں ان کے یہاں اندازِ میرؔ کی پیروی میں جمالیاتی کیف وکم بھی ہے اور ترقی پسندی وجدیدیت کارنگ بھی گہرا ہوا ہے ۔ اس ضمن میں ان کے چند ملے جلے اشعار پیشِ خدمت ہیں   
 
رات جب دونوں ملے تو بھی تھا چپ میں بھی خموش
تو کوئی تصویر تھا یا میں کوئی تصویر تھا
صبا کی طرح آئے اور چل دئے
کبھی ان سے کھل کر نہ کچھ بات کی
شوخی وناز سے زلفوں کو گرا کررخ پر
حشر کے پہلے ہی آفات کرو ہو تم تو
اب ذرا ترقی پسندی کے اثرات بھی ملاحظہ ہوں:۔
ذرا ساقیا یہ بتا مجھے، یہی میکدے کا اصول ہے 
کہیں خم کے خم تھے بھرے ہوئے، کہیں مستقل رہی تشنگی 
امیروں کے گھر روشنی کے لئے
غریبوں کے گھر سے اجالے گئے
غریبوں کے مقدر میں تو رونا عام ہے مضطرؔ
امیری بھی کسی کو خون کے آنسو رلاتی ہے
 
روایت اور ترقی پسندی سے ہو تے ہوئے جب وہ جدیدیت کے دور میں قدم رکھتے ہیں تو عصر ی معنویت ان کی شعری جہات کو مزید کشادگی عطا کرتی ہے ۔ اس نئی شاعری میں حیات و کائنات کا ایک ایسا منظر نامہ سامنے آتا ہے جس میں فرد کی ذات کائنات کی سیر کراتی ہے۔ کبھی آپ بیتی کے پردے میں جگ بیتی تو کبھی غمِ ذات غمِ کائنات میں ڈھلتا نظر آتا ہے ۔ ان کی اس نوع کی شاعری میں جدید معاشرے کی ناہمواریاں بھی واضح ہوئی ہیں۔ چندر شعر ملا حظہ فرمائیں   
 
ہوس کی تیز نظروں سے چھپا تو لیتی ہے خود کو
مگر بچے بلکتے ہیں تو عصمت ہار جاتی ہے
تقلیدِ غیر میں سبھی بے باک ہو گئے
کیا شوق ہے کہ عاریٔ پوشاک ہو گئے
نام پہ دھرم کے فساد اے مضطرؔ
یہ بھی کیا کوئی انقلاب ہے کیا ہے؟
آئو چل کر ہم ہی پوچھیں اہلِ سیاست سے یارو
ایوانوں میں بیٹھنے والے امن کے پیکر کتنے ہیں
یہ نہ پوچھو کہ کیسے کٹی ہے مری
عمر بھر آزماتی رہی زندگی
ہماری دسترس میں ہے دیا تو آپ نالاں ہیں
ہمارے ہاتھ میں سورج ہوا ہوتا تو کیا ہوتا
نفرتوں کی زمیں پر دیا پیار کا
ہم جلاتے رہے وہ بجھاتا رہا
کام آخر آگئیں بیساکھیاں
مرتبہ مل ہی گیا سرکار سے
 
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری سلاستِ زبان و بیان کے ساتھ تاثر پذیری کی حامل ہے ۔ ان کی صالح فکری اور تعمیر پسندی کے نقوش بھی مرتب ہوئے ہیں۔ اس میں ان کی انسانیت نوازی، ہمدردی اور خلوص کا جذبہ بھی متحرک ہے اور قاری کے لئے ترسیل وابلاغ کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے آئینہ ادراک پر داخلی اور خارجی محسوسات کے اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں ۔ یہ ایسی خصوصیات ہیں جو کڑی ریاضت اور مشق ومزاولت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ۔ اس کا اداراک خود مضطرؔ صاحب کو بھی ہے۔ اس لئے کہتے ہیں    
 
یہ فن کا سفر اتنا تو آساں نہیں مضطرؔ
سورج کی طرح صبح سے تاشام جلا ہوں
 
ریاضت کی بھٹی میں تپ کر انہوں نے جوشاعری کی ہے وہ کندن بن سکی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ انہوں نے اہلِ فن پر چھوڑ دیا ہے اور کہتے ہیں:۔
 
اہلِ بصیرت بھانپ ہی لیں گے فن کے ہر اک پہلو کو
فکر کے تیرے سیپ میں مضطرؔ لعل و گوہر کتنے ہیں
 
میں سمجھتا ہوں انہوں نے کسر نفسی سے کام لیا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی شاعری ایک ایسے بالغ نظر اور باشعور شاعر سے متعارف کراتی ہے جس نے حیات و کائنات کے مشاہدات کو لفظ و صوت کا حسین خدوخال عطا کرنے میں بڑی ہنر مندی دکھائی ہے۔ اس اولین مجموعے کی اشاعت پرانہیں دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ ادبی حلقہ خوشدلی سے اس کی پذیرائی کرے گا۔
 
سعید رحمانی 
ایڈیٹر ادبی محاذ کٹک
10؍ستمبر2011ء
 
 مضطرؔ افتخاری اپنے شعروں میں 
 
نیرنگ زمانہ، تہذیبوں کی شکست و ریخت اور شعری ادب میں نت نئے تجربات کے باوجود غزل کی شان وشوکت میں نہ کمی آئی اور نہ ہی اس کی مقبولیت مجروح ہوئی بلکہ غزل نے ہردور میں اپنے شید ائیوں کے ذوق کا ساتھ دیا ہے ۔ غزل شعری زمین کی محتاج ہوا کرتی ہے جیسی زمین ہوگی ویسے ہی اشعار ڈھلیں گے اب یہ کہنے والوں پر منحصر ہے کہ ان میں شعر گوئی کی صلاحیت کہاں تک اور کتنی ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر غزل مرصع اور نہ ہی ہر شعر معرکتہ الآرا ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ غزل کے نصاب کو پورا کرنے کے لئے آور دکا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ توقع فضول ہے کہ ہر شعر قابل تو جہ ہوگا۔ میرے خیال میں غزل کو اسی تناظر میں دیکھنا اور پر کھنا چاہئے۔
 
مضطر افتخاری کا سبجیکٹ سائنس ضروررہا ہے لیکن شاعری سے لگائو نے انہیں شعر کہنے پر مجبور کردیا ہے۔ موصوف عمر کی پچاسویں بہاریں دیکھ چکے ہیں ۔ کلکتے کی ایک بستی میں گزارے گئے روز و شب نے تجر بات و مشاہدات کی صورت میں جو کچھ انہیں دیا ہے اسے وہ شعری پیکر عطا کر کے کتابی صورت میں ’’اعراف‘‘ کے نام سے لوٹا رہے ہیں ۔ مضطر افتخاری صاحب کی 24غزلوں کے مطالعے کی روشنی میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اپنے خوب صورت لہجے اور سہل زبان کے وسیلے سے گلزارِ غزل میں اشعار کے جو گل بوٹے کھلائے ہیں وہ اہل نظر کو یقینا متوجہ کریں گے ۔ شاعر بالغ نظری کے ساتھ باغیانہ ذہن بھی رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جبر و استحصال کے خلاف غیر ارادی طور پر بھی آواز بلند کر بیٹھتا ہے۔ مضطر بھی اسی راہ کے مسافر ہیں۔ انہوں نے جہاں غمذات و کائنات کا ذکر کیا ہے وہیں غیر صالح نظام کی دین غربت و افلاس ، بدعنوانیوں، حق تلفیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو اپنے شعروں میں اجاگرکر کے اپنی حساس طبیعت کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔ تیس برسوں پر محیط مضطر کی شاعری نہ صرف خوشی فکری سے عبارت ہے بلکہ عصری رجحان کی کسوٹی پر کھری اترنے کی بھر پور صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔ ذیل میں ان کے منتخب اشعار پیش کئے جار ہے ہیں   
 
ہوس کی تیز نظروں سے چھپا تولیتی ہے خود کو
مگر بچے بلکتے ہیں تو عصمت ہار جاتی ہے
خواہشِ خلد ہو بندگی میں اگر
وہ تجارت ہے مضطر عبادت نہیں
چاند بھی پانی پانی ہو جاتا 
رخ سے پردہ ذرا ہٹاتا تو
ایسے جیتے ہیں لوگ بستی میں
جیسے کیڑے گٹر میں رہتے ہیں 
کام آخر آگئیں بیساکھیاں
مرتبہ مل ہی گیا سرکار سے
آگ، خوشبو، گلاب، پانی میں 
بھیگا، بھیگا شباب پانی میں
دھرم پالن کے چکر میں پتی ورتا کی گنگا میں
سہاگن عمر بھر خونیں تمنا میں نہاتی ہے
داستانِ الم وہ سناتا رہا 
کچھ بتاتا رہا کچھ چھپاتا رہا
 
عشق کا طور کچھ نیا کرلیں
تم ہمیں، ہم تمہیں جدا کرلیں
وطن میں گھر گھر جلیں گے چولہے ملے گی ہر اک بشر کو روٹی
یہ مژدہ اب تو سنائو یارو کہیں سے ایسی خبر تو لائو
کسی اہلِ ہنر کی بے بسی تم پوچھتے کیا ہو
سفارش کی عدالت میں لیاقت ہار جاتی ہے
 
انجم عظیم آبادی
 
مدیر معاون روزنامہ آبشار
8؍ ستمبر 2011
**************
 مضطرؔ افتخاری اپنے کلام کے آئینے میں 
 
غزل ہرد ور میں اردو کی محبوب ومقبول صنفِ شاعری رہی ہے غزل کے بغیراردو شاعری کا تصور ممکن نہیں۔غزل کا نام آتے ہی ہماری صدیوں کی تہذیب سمٹ کر ہمارے سامنے آنے لگتی ہے۔ہماری جذباتی اور وجدانی کیفیات ،ہماری معاشرت،تمدن اور اخلاق کی ہزار ہا جھلکیاں اپنے چہرے سے نقاب سرکاتی نظر آتی ہیں۔اسی لئے غزل کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی دوسری صنف شاعری کومیسر نہیں۔
 
موجودہ دور کی غزل میں نئے سیاسی اور سماجی شعور کی بنا پر موضوع،مواداور طرز فکر میںکافی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور حقیقت اور واقعیت کے اظہار سے شاعری زندگی سے بہت قریب آگئی ہے۔آج کی غزل میں انسان کی تلاش کے ساتھ ساتھ ان معاشرتی اور عمرانی تصورات کی ترجمانی کی جارہی ہے جو آج کے دور کا نصیب ہے۔ نئے ڈکشن اور حرف ولفظ کی نئی معنویت نے غزل کے معیار کو ترقی کے بامِ عروج تک پہنچا دیا ہے۔
 
مضطر افتخاری کی غزلوں کی کائنات ہرچند کہ بہت مختصر ہے مگر اردو شاعری کی اس ’’آبرو‘‘ سے کسی طور پر جدا نہیں ہے جو نئے دور سے مراسم آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی روایت سے تعلقات قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ مضطرؔ کی غزل فکر واحساس کے نئے افق سے طلوع ہوتی ہے۔ 
اپنی شہرت اور شناخت کے پہلے پڑائو پر ان کے لہجے میں ایسا اعتماد جھلکتا ہے جو ان کے شاندار ادبی مستقبل کا پتہ دیتا ہے۔ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ’’اَعْراَف ‘‘ کے چندا وراق میرے سامنے ہیں۔مضطر نے اپنی شاعری کو عنوان سے ہم آہنگ کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور اپنی اس کوشش میںوہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔
 
کلکتہ سے تعلق رکھنے والے جن موجودہ شاعروں سے میں واقف ہوں(وہ بھی شاعری کے حوالے سے)ان میں منور راناؔ،معصومؔ شرقی اور مضطرافتخاری ہیں۔منور راناایک Established شاعر ونثر ونگار ہیں۔ان کی شاعری پر کچھ کہنا سور ج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ معصوم شرقیؔ اپنے پہلے ہی مجموعۂ کلام ’’عکس تاب‘‘ سے مستند ہوچکے ہیں۔
 
مضطر افتخاری اپنے معاصر شعراء سے کافی حد تک متاثر نظر آتے ہیں۔یہ کوئی عیب نہیں بلکہ روایت کی پاسداری ہے۔ یہ روایت نئی نہیں۔ میرؔ،غالبؔ،دردؔ،داغؔ اوراقبالؔ تک نے بھی اس روایت کو برقراررکھا ہے۔ کوئی بھی شاعر اس روایت سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔مگر روایتوں کے امین ہوتے ہوئے اپنی انفرادیت کی پہچان بنانی پڑتی ہے۔مثلاً مجموعہ میں شامل مضطرؔ کا یہ شعر دیکھیں   
 
ہم سمجھتے کہ بہت مخلص و ہمدرد ہیں آپ
کسی روتے ہوئے انساں کو ہنسایا ہوتا
مضطرؔ کا یہ شعرنداؔفاضلی کے اس شعر پر بھاری ہے کہ
گھر سے مسجد ہے بہت دور، چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
 
یہاں صرف ایک بچے کی بات ہے جو کسی وجہ سے رورہا ہے۔مگر مضطرؔ نے انسانوں کی بات کہہ کر شعر کو لافانی بنادیا ہے۔ وہ انسان جو آج نامساعد حالات سے نبردآزما ہے،جو ایک ایک پل کی خوشی کے لئے ترس رہا ہے،غم واندوہ کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہے،صارفی سماج اور ہرپل بدلتے ہوئے حالات نے اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ اور چہرے کی چمک چھین لی ہے۔
 
دھوپ میں سانس تو لے سکتے مسافر مضطرؔ
سایہ دار ایسا شجر کوئی لگایا ہوتا
 
’’شجر‘‘ یہاں ایک وسیع معنی میں استعمال کیاگیاہے۔شجر سے مراد یہاں اخوت وبھائی چارگی،پیار ومحبت،امن وسکون ،راحت اور سائبان ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر سچائی اور سماجی حقیقت ہے کہ انسان اس دنیا میں آیا ہے تو کوئی ایسا کام انجام دے جو عام انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے ہو۔ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اس عہد کا المیہ یہ ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔
دولت کمانے کی دُھن نے ہم سے ہمارا چین وسکون اوروہ قیمتی لمحات بھی چھین لیا ہے جس میں باہم بیٹھ کر ایک دوسرے کا حال معلوم کرلیا کرتے تھے۔
 
رات جب دونوں ملے تُو بھی تھا چپ میں بھی خموش
تو کوئی تصویر تھا، یا میں کوئی تصویر تھا
اس شعر کو پڑھتے وقت میرؔ کا وہ مشہور شعر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔
رات محفل میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
 
بعض وقت حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں یا ہم اس قدر شدید ذہنی انتشار میںمبتلا ہوجاتے ہیں کہ خاموشی ہی زبان بن جاتی ہے اور مخاطب ہماری خاموشی کی زبان بخوبی سمجھ جاتا ہے۔ یہ شعر پیکر تراشی کی عمدہ مثال ہے۔
 
مضطرؔ افتخاری اپنے کلام میں تصنّع،تکلّف اور مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے بلکہ زندگی کی سچائیوں کو ادبی دیانت داری سے پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عصری آگہی کی جھلملاتی تصویریں نظر آتی ہیں اور پڑھتے وقت قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نوکِ قلم سے شعور کی پرتیں ہٹائی جارہی ہیں   
 
کسی اہلِ ہنر کی بے بسی تم پوچھتے کیا ہو
سفارش کی عدالت میں لیاقت ہار جاتی ہے
تم ہی بتائو اس محفل میں مجھ سے بہتر کتنے ہیں
لب پر میٹھے بول ہیں جن کے دل میں خنجر کتنے ہیں
قدر نہیں ہے اس دنیا میں فن کے لعل و گوہر کی
شہرت کے ہر بام پہ یارو کنکر پتھر کتنے ہیں
 
مضطرؔ کے کلام میں یاس وقنوطیت نہیں بلکہ امید اور حوصلے کے ساتھ زندگی کی سچائیوں ،تہذیبی اور معاشرتی اقدار اور فکری تبدیلیوں کو سمجھنے سمجھانے کا مشور ہ ملتا ہے۔ ان کے یہاں غمِ جاناں کم اور غمِ دوراں کی جھلکیاں زیادہ دکھائی پڑتی ہیں۔ وہ غمِ ذات کو غمِ کائنات بناکر پیش کرتے ہیں  
 
یہ عادت ہے مری سب سے الگ افکار رکھتا ہوں
مگر ان کو مرا طرز دیگر اچھا نہیں لگتا
یہ شوخی اور مکاّری تمہاری مست آنکھوں میں
محبّت کے کٹورے میں شرر اچھا نہیں لگتا
 
مضطرؔ افتخاری دورِ جدید کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں اور آج کے ماحول سے بھی متاثر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی کی اعلیٰ قدریں دم توڑ چکی ہیں اور انسانی رشتوں کی شکست وریخت نے اخلاقی بحران پیدا کردیا ہے۔ ایسے موضوعات پر جب مضطرؔ اپنا قلم اٹھاتے ہیں تو ان کی شاعری میں تلخی پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ تلخی اس سنگ دل سماج اور استحصالی معاشرہ کے خلاف ہے مگر اس تلخی میں بھی نرم روی موجود ہے   
 
میاں!ممتا سے وہ سرشار ہے، دیوی کہو اس کو
بدن کو بیچ کر بچوں کو جو روٹی کھلاتی ہے
ہوس کی تیز نظروں سے چھپا تولیتی ہے خود کو
مگر بچے بلکتے ہیں تو عصمت ہار جاتی ہے
دھرم پالن کے چکر میں، پتی ورتا کی گنگا میں
سہاگن عمر بھر خونی تمنا میں نہاتی ہے
 
مذکورہ اشعارمیں ترقی پسندانہ خیالات کی بھر پور ترجمانی کی گئی ہے۔ ان اشعار کو پڑھ کر ساحرؔلدھیانوی کی مشہور نظم’’چکلے‘‘ کی یاد آتی ہے۔ کسی شاعر کے اسلوب وآہنگ میں یک رنگی تو ہوسکتی ہے لیکن موضوعات میں یکسانیت یا تکرار سے شاعری متاثر ہوتی ہے مگر مضطرؔ کاکلام اس عیب سے پاک ہے۔ ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے سہلِ ممتنع کے ساتھ ساتھ محاوروں کا کس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔
 
اپنی حد سے گزر گیا پانی
جب کہ آنکھوں کا مر گیا پانی
پانی پانی جو سب کو کرتا تھا
آج اس کا اتر گیا پانی
 
انسان کا قیمتی سرمایہ شرم وحیا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسانیت کے اعلیٰ مقام سے گرجاتا ہے۔ چھوٹی بحر میں جس طرح مضطرؔ نے محاوروں کا استعمال کیا ہے وہ خوب ہے۔ اسی طرح شہروں کی گنجان اور گھنی آبادی کے سبب انسان چھوٹے چھوٹے گھونسلہ نماں مکانوں میں رہنے کے لئے مجبور ہے۔ گھر کے سامنے گندی نالیوں کی عفونت بھر ے ماحول میں رہتے رہتے اس کا عادی بن چکا ہے۔مضطرؔ نے اپنے شعروں میں کس خوبصورت انداز سے اس کی منظر کشی کی ہے   
 
یاس و حرماں، خطر میں رہتے ہیں
ہم کرائے کے گھر میں رہتے ہیں
ایسے جیتے ہیں لوگ بستی میں
جیسے کیڑے گٹر میں رہتے ہیں
 
مضطرؔ کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ منور راناؔ سے زیادہ متاثر ہیں۔ بعض غزلیں تو ایسی ہیں جنہیں پڑھتے وقت منور راناؔ کا باربار خیال آتا ہے۔اس مجموعہ میںشامل دوغزلیں تو ایسی ہیں جو منور راناؔ کی زمینوں میں کہی گئی ہیں۔ پہلے منور راناؔ کے اشعار دیکھیں:
 
مقدر کے لکھے کو لڑکیاں بالکل نہیں پڑھتیں
وہ دیکھو ریت پر بیٹھی وہ گڑیا گھر بناتی ہے
جلا کر راکھ کردیتی ہے اک لمحے میں شہروں کو
سیاست بستیوں کو روز کوڑا گھر بناتی ہے
کھلونوں کی دکانیں کیوں مجھے آواز دیتی ہیں
بتا اے مفلسی تو کیوں مجھے پاگل بناتی ہے
شکم کی آگ میں جلنے دیا نہ عزّت کو
کسی نے پوچھ لیا تو خلال کرنے لگے
اب مضطرؔ افتخاری کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:
بڑی خودار ہے بیٹی، ہر اک تہوار میں ہنس کر
وہ اپنی ماں سے بوسیدہ دوپٹّے کو رنگاتی ہے
آئو چل کر ہم ہی پوچھیں اہلِ سیاست سے یارو!
ایوانوں میں بیٹھنے والے امن کے پیکر کتنے ہیں
سسکنا اور بلکنا دیکھ کر معصوم بچوں کا
یہی وہ معرکہ ہے جس میں غربت ہار جاتی ہے
بچے بھی اپنے دانتوں میں کرنے لگے خلال
اس مفلسی میں وہ بھی تو چالاک ہوگئے
 
مضطرؔ کی غزلوں کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں حالات اور زمانے کی باز گشت ہے،عصری تقاضوں کا احساس ہے،جذبات میں صداقت ہے،زندگی کی رنگا رنگ تہہ داری اور پیچیدگی کا بیان ہے۔مضطرؔ نے انسانی زندگی ،اس کے رشتوں اور روح کے کرب کا بیان بڑی نکتہ رسی او رکلا سکی رچائو کے ساتھ کیا ہے۔
 
بحیثیت مجموعی ہم کہہ سکتے ہیں کہ مضطرؔ کی غزلوں میں نیا رنگ وآہنگ اور تازگی ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں کی بنیاد جذبات کی صداقت،زبان کی لطاقت اور فکرکی ندرت پر رکھی ہے۔
 
میری ناقص رائے اور یہ کمزور تحریریں مضطرؔ کی ادبی شعری حیثیت کے تعین کے لئے کافی نہیں ہیں۔ ان کے شاعرانہ مقام کا تعین کرنا نا قدینِ فن کا کام ہے۔
 
ڈاکٹر نصیر الدین اظہر
صدر شعبہ اردو یسن میو ڈگری کالج، نوح (میوات) ہریانہ۔122107
 
 مضطرؔ افتخاری کا شعری اظہاریہ 
 
عصری عہد نامہ میں خوش فکر تازہ دم سخن گستر مضطرؔ افتخاری کا نام ادبی افق پر ابھرتا ہے مضطرؔافتخاری اپنے شعریتی اسلوب وفن کی روشنی میں اپنے محبوب سے ذائقہ لطیف لئے گویا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی دسترس میں جو شعری تخلیقی عمل ہے وہ فنّی وثقافتی اعتبار سے پوری توانائی لئے وسیع زمینی رقبہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
 
مضطرؔ افتخاری کی خوش فکری اس امر کی دلیل پیش کرتی ہے ان میں سلیس زبان،مفہوم میں کشادگی وصفائی کے ساتھ شاداب خیالات کی ترجمانی ،زبان وادب کے وجہی قدر میلانات کے مرکبات کی نقاب کشائی نیز شعری جہت میں بے کنار سمندروں اور سر بفلک پہاڑوں کی وسعتوں کے زاویئے کا احساس دلاتی ہے۔ ان کے اشعار میں غیر معمولی افکار سے علمی وادبی بصیرت کی پرستش نگاری کے اوصاف اور سخن گستری میں جستہ جستہ شائستگی وشگفتگی کی چاشنی کے علاوہ شعریتی دائروں میں وضع کردہ تہذیبی، تمدنی، معاشرتی، مذہبی اور سماجی عبارتوں کی دھڑکنوں کی تحریکیں نمایاں ہوتی ہیں۔ مضطرؔ افتخاری کے بیشتر اشعار دور جدید کے ادبی پس منظر میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔
 
مضطرؔ افتخاری کا پہلا شعری مجموعہ’’اعراف‘‘ شاید کہ یہ ادبی کاوشوں کا پہلاپڑائو دور حاضر کے مشاہیر ادب کے گرد مجموعہ کے خالق کی حقیقی وسچی ادبی شناخت کروانے میں کافی معاون ہوسکتا ہے اہلِ نظر وادبی شائقین مطالعہ کریںگے تو انہیں قلبی مسرت حاصل ہوگی چونکہ مجموعہ اعراف کے خالق نے نہایت کومل وسادہ لفظوں کا پیرہن عطا کیا ہے جو لائق ستائش وتحسین ہے مجھے یقین کامل ہے کہ مستقبل کے ادبی افق پر مضطرؔ افتخاری منفرد لب ولہجہ کے دمکنے والا ستارہ ثابت ہونگے۔
 
20-09-2011 انورؔؔ بارہ بنکوری
 
 
 
 
 
صحت مند نظریۂ حیات کا شاعر
 
 
 
مضطر ؔافتخاری اردو شاعری کی جدید ترین نسل سے تعلق رکھتے ہیںجسے ہم اپنی آسانی کے لیے ۱۹۸۰ ء کے بعد کی نسل یا ’’مابعد جدیدیت‘‘ بھی کہتے ہیں۔
کلکتہ کے ادبی افق پر مضطرؔ افتخاری ایک مانوس نام ہے۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی ادبی زندگی ابھی مختصر ہے لیکن اس مختصر عرصے میں انھوں نے فنِ شاعری کے مختلف اصولوں کا درک حاصل کرنے کی ہر امکانی کوشش کی ہے۔
مضطرؔ نے روایت سے رشتہ بنائے رکھا ہے لیکن عصری حسّیت کا بھی احساس ان کے یہاں واضح ہے۔ وہ زمینی حقائق اور آفاقی صداقتوں سے نظریں نہیں بچاتے۔ انھوں نے بدلتے ہوئے حالات کا سنجیدگی سے مشاہدہ کیا ہے اور اپنے عہد کی تلخیوں، حادثاتِ زمانہ کاکرب اور زندگی کے سرد و گرم کو اپنے اشعار میں جگہ دی ہے۔ لفظیات اور اُسلوبیات کی سطح پر بھی وہ کسی کے مقلّد اور مُتبّع نظر نہیں آتے ہیں۔ وہ داخلی اور خارجی حالات، جذبات و احساسات کا بیان براہ راست انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے یہاں نئی غزل کے نئے امکانات ملتے ہیں۔ مستقبل میں ان سے بہتر توقعات کی جاسکتی ہیں
 
ڈاکٹر معصوم شرقی
۴؍نومبر ۲۰۱۱ء  
 
 
 
مضطرؔ افتخاری ۱۹۸۰ء کے بعد کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اعراف ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان کے کلام کے سرسری مطالعے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے یہاں نئی حسّیت کا بھر پور اظہار ملتا ہے اور موجودہ دور کے داخلی و خارجی مسائل سے آگاہی بھی ہوتی ہے۔ گردو پیش میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات جہاں ان کی غزلوں کے موضوع بنتے ہیں وہاں ان کا حساس دل بھی دھڑکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اعراف ان کے شعری سفر کا پہلا پڑائو ہے۔ ابھی انھیں ایک لمبی مسافت طے کرنی ہے۔ اس کے لئے انھیں محنت اور ریاضت سے گزرنا پڑے گا۔ اگر مضطرؔ افتخاری صاحب محنت، لگن اور سچائی کے ساتھ اپنے تخلیقی عمل سے جڑے رہے تو ایک دن کامیاب شاعر کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔
 
امید ہے کہ یہ مجموعہ ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ مضطرؔ صاحب کے حسبِ ذیل اشعار پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں:
 
ہے سفر ہی سفر، سفر کے بعد
تازہ دم خود کو ہم ذرا کرلیں
ایسے جیتے ہیںلوگ بستی میں
جیسے کیڑے گٹر میں رہتے ہیں
کام آخر آگئیں بیساکھیاں 
مرتبہ مل ہی گیا سرکار سے
ظلم کو حد سے گذر جانے تو دو
مفلسی لڑ جائے گی دستار سے
 
پروفیسر یوسف تقی  ؔ
سابق صدر شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی
********************
 

 

 
You are Visitor Number : 1806