* جانِ منِ، جانِ جگر، جانِ وفا ہو جا *
جانِ منِ، جانِ جگر، جانِ وفا ہو جائے گا
رفتہ رفتہ بت سے وہ کافر خدا ہو جائے گا
عشقِ مرشد میں اگر اے دل فنا ہو جائے گا
خود بخود تو واقفِ رازِ بقا ہو جائے گا
جب ہمارا اور ان کا سامنا ہو جائے گا
حق و ناحق کا اسی دن فیصلہ ہو جائے گا
بڑھ کے تیرا درد جب حد سے سوا ہوجائے گا
خود مسیحا، خودہی مرہم، خود دوا ہوجائے گا
ڈھونڈنا اُس کو اگر ہے، تو خود ہی ہوجا لاپتہ
لاپتہ ہوتے ہی تو اس کا پتہ ہو جائے گا
عشقِ مرشد میں بنالے دل کو تو روشن چراغ
بن کے پروانہ جہاں تجھ پہ فدا ہو جائے گا
خواہشاتِ نفس سے مضطرؔ اگر منہ موڑ لے
سب سے اعلیٰ مرتبہ بیشک ترا ہوجائے گا
****************** |