* بدل دے قسمت جو ہر کسی کی، کہیں سے ای *
بدل دے قسمت جو ہر کسی کی، کہیں سے ایسی نظر تو لائو
مٹا دے ہر دل سے جو کدورت، ہے کوئی ایسا بشر تو لائو
غزل کے گیسو سنور بھی جائے، ہر ایک مصرعہ مہک بھی اٹھّے
جو چاہو ایسا تو پہلے ہمدم، سخن میں اپنے اثر تو لائو
چمن کے سوکھے شجر پہ جس سے، خوشی کے برگ و ثمر بھی آئیں
تمام اہلِ چمن بھی چہکیں، تم ایسا خود میں ہنر تو لائو
وطن میں گھر گھر جلے ینگے چو لہے، ملے گی ہر اک بشر کو روٹی
یہ مژدہ اب تو سنائو یارو، کہیں سے ایسی خبر تو لائو
خوشی کا سورج ہو جس میں روشن، طرب کا ہو چاند جس کی رونق
جہان ہستی میں تم بھی اپنے، وہ شام اور وہ سحر تو لائو
چمن چمن دشت وکوہ صحرا، تلاش کرنے سے فائدہ کیا
دکھا دے تم کو جو اس کی صورت، وہ دیدۂ حق نگر تو لائو
عبث تم اس کے لئے ہو مضطر، وہ مضطرب ہوگا خود ہی مضطرؔ
ہے شرط بس نالہ و فغاں میں تم اپنے پہلے اثر تو لائو
******************* |