* سرور و وجد کے دریا میں ڈال دے مجھ کو *
سرور و وجد کے دریا میں ڈال دے مجھ کو
جو ڈوبنے میں لگوں تو اچھال دے مجھ کو
ہر ایک دل میں رہوں بعدِ مرگ زندہ میں
خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھال دے مجھ کو
میانِ میکدہ ساقی یہ کام تیرا ہے
جو لڑکھڑائوں تو بڑھ کے سنبھال دے مجھ کو
بھٹک رہی ہے نظر اب سلگتے منظر میں
حسین رُت کے تو بانہوں میں ڈال دے مجھ کو
یہی نصیب ہے شاید، مجھے ملال نہیں
میں چبھ رہا ہوں تو دل سے نکال دے مجھ کو
وہی روایتی حبس دوام میں ہوں گھرا
انا کے خول سے باہر نکال دے مجھ کو
سوال کر یہی مضطرؔ تو دینے والے سے
نگاہِ دوربیں، روحِ جلال دے مجھ کو
************** |