* بدلی تری نظر تو بدلنا پڑا مجھے *
بدلی تری نظر تو بدلنا پڑا مجھے
تیرے ہی رنگ میں خود کو بھی رنگنا پڑا مجھے
ممکن نہیں ہے پانی میں رہ کر مگر سے بیر
سمجھوتہ اس لحاظ سے کرنا پڑا مجھے
میں جانتا تھا وعدۂ فردا ہے اک فریب
وعدے پر تیرے پھر بھی بہلنا پڑا مجھے
سوزِ غم فراق کی اللہ رے یہ تپش
اپنی لگائی آگ میں جلنا پڑا مجھے
اپنی ہی دید کا میں طلب گار جب ہوا
پھر آدمی کی شکل میں ڈھلنا پڑا مجھے
ہنسنے کا گو مآل ہے میری نگاہ میں
مضطرؔ پھر اس کے بعد بھی بننا پڑا مجھے
********************************** |