* نوازش بجلیوں کی اور جورِ آسماں کب *
نوازش بجلیوں کی اور جورِ آسماں کب تک
اٹھے گا صحنِ گلشن سے نہ جانے یہ دھواں کب تک
رہے گا گلشنِ ہندوستاں وقفِ خزاں کب تک
پلٹ کر آئے گی یارب بہارِ جاوداں کب تک
یہ منظر قتل و غارت کا یہ روز و شب کے ہنگامے
اڑائی جائے گی امن و اماں کی دھجّیاں کب تک
زباں خاموش ہے اور آنکھ بھی محو تماشا ہے
نظر کے سامنے جلتے رہیں گے اب مکاں کب تک
یہ رہزن ہیں کہ رہبر ہیں سمجھ میں کچھ نہیں آتا
یوں ہی لوٹا کریں گے رہروں کا کارواں کب تک
یہ بھٹکے نگے تری الفت کے مارے چار سو آخر
اِدھر کب تک، اُدھر کب تک یہاں کب تک، وہاں کب تک
یہ بجلی کی نوازش ہے جلے ہیں پھوس کے چھپّر
رہیں گی الفتیں برق و سقف کے درمیاں کب تک
جسے دیکھو وہی تو گردشِ دوراں کا شاکی ہے
ٹلے گی سر سے آخر یہ بلائیں ناگہاں کب تک
تعصّب کا اثر پھیلا ہوا ہے ساری دنیا میں
رہے گا دہر میں بھائی سے بھائی بدگماں کب تک
یہ منظر خود نمائی کا، یہ عریاں حسن کے جلوئے
اڑائی جائے گی شرم و حیا کی دھجّیاں کب تک
یہ مضطرؔ پوچھتا ہے تم سے، بس اتنا بتا دو تم
دلِ نا شاد میرا ہوگا آخر شادماں کب تک
******************************* |