* یوں نفرتوں کے بیج وہ چپکے سے بوگئے *
یوں نفرتوں کے بیج وہ چپکے سے بوگئے
جتنے شریک حال تھے سب دور ہوگئے
اس شہر بے حسی میں جو احساس کی طلب
ہم ڈھونڈنے کو نکلے تو خود آپ کھو گئے
محفل میں ان کے سامنے جب آئینہ رکھا
دھبّے تمام آبِ تبسّم سے دھوگئے
احساس جرم تھا کہ ندامت کی تھی سزا
جب بات کھل گئی تو تہہِ خاک ہوگئے
شاید کہ ان کے بغض وحسد کی یہ دین ہے
ڈوبے وہ خود بھی اور سبھی کو ڈبو گئے
کیا فائدہ ہوا ارنی کہہ کے اے کلیمؐ
اس نے نقاب اٹھائی تو بے ہوش ہوگئے
الفت بھری زمین پہ یہ نفرتوں کی فصل
مضطرؔ وہ کون لوگ تھے جو بیج بو گئے
******************************** |