* تڑپ رہا تھا جسے حالِ دل سنانے کو *
تڑپ رہا تھا جسے حالِ دل سنانے کو
اسی نے لوٹ لیا زیست کے خزانے کو
جوراز دفن تھا مدّت سے میرے سینے میں
اُسی کی آج خبر ہوگئی زمانے کو
بدل سکو تو بدل دو یہ کرب کا منظر
نہیں تو لوٹ چلو اپنے آشیانے کو
چلے بھی آئو کہ اب شام ڈھلنے والی ہے
سجا چکا ہوں میں اپنے غریب خانے کو
مری نگاہ میں جس کی نہیں کوئی اوقات
اڑے ہیں مجھ سے وہی آنکھ اب لڑانے کو
ردایہ خاک کی اوڑھے ہوئے ہو کیوں مضطرؔ
یہاں بھی آئیں گے وہ تو تمہیں ستانے کو
******************************* |