* کبھی مہنہ سے چھینے نوالے گئے *
کبھی مہنہ سے چھینے نوالے گئے
کبھی بزم سے ہم نکالے گئے
نہ مندر نہ مسجد شوالے گئے
سبھی نفرتوں کو بہالے گئے
وہ مئے جس میں شامل تھے رنج والم
ہمارے ہی ساغر میں ڈالے گئے
امیروں کے گھر روشنی کے لئے
غریبوں کے گھر سے اجالے گئے
ہمارا لہو جس میں شامل رہا
اسی گھر سے ہم تو نکالے گئے
تھے جتنے بھی سنگِ ملامت وہ سب
مرے سر کی جانب اچھا لے گئے
نہ جائیں گے وہ داغ مضطرؔ کبھی
جو دل میں محبت سے پالے گئے
************************* |