* خامیوں کو مری وہ دکھاتا رہا *
خامیوں کو مری وہ دکھاتا رہا
ساتھ اوقات اپنی بتاتا رہا
داستانِ الم وہ سناتا رہا
کچھ بتاتا رہا، کچھ چھپاتا رہا
نفرتوں کی زمیں پر دیا پیار کا
ہم جلاتے رہے وہ بجھاتا رہا
چاند شرما نہ جائے کہیں دیکھ کر
زلف رخ پر گرتا اٹھاتا رہا
کتنے گھر جل گئے نفرت و بغض سے
آگ نفرت کی لیکن لگاتا رہا
تشنہ لب رہ نجائے کوئی اب یہاں
خون اپنے جگر کا پلاتا رہا
اس کی باتوں کا مضطرؔ اثر ہو نہ ہو
آئینہ ہر کسی کو دکھاتا رہا
************************* |