* محرومیوں کا کرب چھپانے میں رہ گیا *
محرومیوں کا کرب چھپانے میں رہ گیا
روتے ہوئے دلوں کو ہنسانے میں رہ گیا
تکذیب کی وہ راہ سے پہنچا عروج پر
سچائیوں کا درس جو سنانے میں رہ گیا
پھل پھول اس کے حصے میں آتا بھی کس طرح
وہ پتھروں پہ گھاس اُگانے میں رہ گیا
ہوتی بھی میری بزم میں کس طرح روشنی
میں رہ گذر پہ شمع جلانے میں رہ گیا
وہ بے حسی کی راہ پر چل کر تمام عمر
احساس کے صلیب اٹھا نے میں رہ گیا
مضطرؔ خلوص کہتے ہیں جس کو ہم اہلِ دل
اب تو برائے نام زمانے میں رہ گیا
********************************* |