* دل کو مرے ایک پل قرار نہیں ہے *
نذرِ غالبؔ
دل کو مرے ایک پل قرار نہیں ہے
آئو کہ اب تابِ انتظار نہیں ہے
جینے کی ہم اب یہاں امید کریں کیا
زیست کا اب کچھ اعتبار نہیں ہے
شعلے بھڑکتے ہیں آج اپنے وطن میں
امن واماں کوئی پائیدار نہیں ہے
کیسے کہوں، ہوگئی ہے تیری رسائی
رُخ پہ تری راہ کا غبار نہیں ہے
ہم توستم کیش ہیں نصیب ہے یہی
ظلم کے ہی آپ کا شمار نہیں ہے
شکرِ خدا لاکھ لاکھ عشقِ صنم میں
دامنِ دل مِرا تار تار نہیں ہے
مضطرؔ پر اضطرار مری ذرا سن
عشق میں داروئے اضطرار نہیں ہے
************************** |