* دورِ جدید میں تو سنبھلنے لگی غزل *
دورِ جدید میں تو سنبھلنے لگی غزل
ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے چلنے لگی غزل
صحرائے درد و غم میں ٹہلنے لگی غزل
یادوں کی تپتی دھوپ میں جلنے لگی غزل
جن کی حکومتیں تھیں ہر اک صنف پر میاں
کیوں ان کی دسترس سے نکلنے لگی غزل
بے وجہ مجھ سے روٹھ کے جانے لگی ہے جب
آنکھوں میں اشک بن کے مچلنے لگی غزل
شرم و حیا تو لٹ گئی تقلیدِ غیر میں
بے پردہ ہو کے گھر سے نکلنے لگی غزل
مڑ مڑ کے دیکھتی رہی گردِ سفر اُسے
کس شانِ بے نیازی سے چلنے لگی غزل
اردو پہ ہے بہار خزاں ختم ہوگی
مضطرؔ پھر آج پھولنے پھلنے لگی غزل
************************ |