* گرم ہر سو ظلم کا بازار ہے *
گرم ہر سو ظلم کا بازار ہے
عہد نو میں جینا ہی دشوار ہے
بھول بیٹھا ہے سبق اخلاق کا
ہر زباں مانند اک تلوار ہے
کیا علاجِ بدگمانی اب کریں
اب تو ہر اک ذہن ہی بیمار ہے
قول پر کوئی عمل کرتا نہیں
بس وہی گفتار ہی گفتار ہے
کس قدر چھائی ہے اب بے پردگی
ہر گلی اک حسن کا بازار ہے
ہے یہ مضطرؔ کے لہو کا معجزہ
صحنِ گلشن اب جو لالہ زار ہے
************************* |