* یہ شہر جو آباد تھا ویران لگے ہے *
یہ شہر جو آباد تھا ویران لگے ہے
ہر شخص ہمیں تو یہاں بے جان لگے ہے
بیدادِ فلک، گردشِ دوراں کا ہے شاکی
اس دور میں ہر شخص پریشان لگے ہے
ویسے تو ہر اک چہرہ شگفتہ ہے مگر کیوں
سہما ہوا، سمٹا ہوا، انسان لگے ہے
کردار کا پستی کا عجب حال ہے لوگو
دیکھے میں یہ انسان بھی شیطان لگے ہے
بھگوان کا ڈر دل میں نہ ہے خوف خدا کا
وہ ہندو لگے ہے نہ مسلمان لگے ہے
کرنا تو کسی کام کا ہو جاتا ہے مشکل
کہہ دینا زباں سے بڑا آسان لگے ہے
اس شخص سے کچھ جان نہ پہچان ہے مضطرؔ
کیوں میرے لئے اتنا پریشان لگے ہے
**************************** |