* ان کو جب ہر بات پر تیور بدلنا آگیا *
ان کو جب ہر بات پر تیور بدلنا آگیا
مصلحت کے سانچے میں مجھ کو بھی ڈھلنا آگیا
سر پھر ی آندھی کا اتنا ہی کرشمہ ہے بہت
قطرے کو سیلاب کی مانند ابلنا آگیا
شادماں دودن نہ ہو پائے اگر تو کیا ہوا
آتشِ رنج والم میں ہم کو چلنا آگیا
اپنے ہمسایہ کی اب بے اختیاری دیکھ کر
رنگ گرگٹ کی طرح اس کو بدلنا آگیا
سر پٹکنا دیکھ کر موجوں کا ساحل پر مدام
تیرے در کی خاک ہم کو سر پہ ملنا آگیا
بادِ صر صر کا اُسے تھوڑا سہارا کیا ملا
خاک کو پربت کی چوٹی تک اچھلنا آگیا
عشق کی راہوں میں مجھ کو گرچہ ناکامی ملی
پر خطر وادی میں تو مضطرؔ سنبھلنا آگیا
******************************* |