* تیرے لئے بے چین مرا دل کل بھی تھا او *
تیرے لئے بے چین مرا دل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
تجھ پہ بھروسہ تو لا حاصل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
سچ پوچھو تو دنیا والو، بس ہے کمی جانبازوں کی
شمشیر بکف ورنہ قاتل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
نائو کرو دریا کے حوالے، ڈرنا ہے بے کار میاں
طوفاں اپنے مدمقابل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
بادِ صرصر موجِ تلاطم، سب کے سب ہیں میرے نام
دور مری قسمت کا ساحل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
دم لیتا ہوں، مت سمجھو تھک ہار کے میں بھی بیٹھ گیا
زندہ دل میں شوقِ منزل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
کیسی دوری، اور محرومی، کس کا شکوہ، کس کا غم
میں تجھ میں، تو مجھ میں شامل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
مجھ کو تم گمنام نہ سمجھو اس کی بدولت اے مضطرؔ
شہرہ میرا محفل محفل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
****************************************** |