* ہٹا کر دیکھ تو پر دے ذرا چشمِ بصیرت *
ہٹا کر دیکھ تو پر دے ذرا چشمِ بصیرت کے
نظر آئیں گے جلوے چار سو وحدت ہی وحدت کے
حقیقت اس پتنگے کی اور یہ جذبے شہادت کے
ارے انساں! ذرا تو جائزہ لے اپنی ہمت کے
پڑیگا ایک دن اس بزم میں اغیار سے پالا
ابھی سے سیکھ لے آداب اے دل رسمِ الفت کے
محبت ہوگئی عنقا الٰہی اب تو دنیا میں
جدھر دیکھو اُدھر ہی گرم ہے بازار نفرت کے
نظر آتے ہیں بالکل باثرع جو لوگ اے یارو
وہی تو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اب شریعت کے
بگڑ جاتا ہے رہ رہ کر مرا ہر کام دنیا میں
چمکتے ہیں ستارے دیکھئے کب میری قسمت کے
مراغم خوار ہے کوئی نہ کوئی ہم نوا مضطرؔ
سنائوں کس کو افسانے میں اپنی شام فرقت کے
*************************************** |