* زندگی روز مجھے زخم نیا دیتی ہے *
زندگی روز مجھے زخم نیا دیتی ہے
جانے کس جرم کی ہر لمحہ سزا دیتی ہے
دل کے آنگن میں صبا جب بھی صدا دیتی ہے
میرے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتی ہے
جب بھی چاہا کہ ترے غم سے چرالوں آنکھیں
چشم میری اسی پل اشک بہا دیتی ہے
تیرے ہر ظلم و ستم اور تغافل کی قسم
زندگی جینے کا انداز سکھا دیتی ہے
جب بھی چاہا کہ زمانہ سے کنارا کرلوں
مجھ کو دنیا کی نئی شان صدا دیتی ہے
پیاس مری کہاں اشکوں سے بجھے گی مضطرؔ
تشنگی یہ تو مری اور بڑھا دیتی ہے
******************************* |