* لمحہ لمحہ عتاب ہے شاید *
لمحہ لمحہ عتاب ہے شاید
زندگی اب عذاب ہے شاید
جس پہ ٹھہری وہ ہوگیا بے خود
چشم جاناں شراب ہے شاید
سب عقیدت سے اسکو دیکھتے ہیں
وہ مقدس کتاب ہے شاید
عیب ان کو نظر نہیں آتا
آئینہ ہی خراب ہے شاید
تھی جو عیش و نشاط کی دنیا
اب تو خانہ خراب ہے شاید
رخ پہ بکھرے تو شام ہوتی ہے
زلف ان کی سحاب ہے شاید
لب پہ شکوہ جو انکا ہے مضطرؔ
اثرِ اضطراب ہے شاید
***************** |