* یہ کس حالت کو پہنچایا گیا ہوں *
یہ کس حالت کو پہنچایا گیا ہوں
کہ ہر موسم میں جلوایا گیا ہوں
میں جب محفل میں بلوایا گیا ہوں
تولے کر دل کا سر مایا گیاہوں
ادا، انداز، شوخی اور غمزہ
دکھا کر میں تو تڑپایا گیا ہوں
نہ پوچھو عشقِ جاناں کا کرشمہ
ہر اک محفل سے اٹھوایا گیا ہوں
ترانہ غم کا ایسا ہوں کہ یارو
میں ہر انداز سے گایا گیا ہوں
صلہ حق گوئی کا مجھ سے نہ پوچھو
کہ ہر محفل سے ٹھکرایا گیا ہوں
مآلِ صبر اے مضطرؔ کہوں کیا
فقط وعدوں پہ بہلایا گیا ہوں
*************************** |