* کیسے کہہ دوں کہ ان میں شرافت نہیں *
کیسے کہہ دوں کہ ان میں شرافت نہیں
صرف باتوں میں ان کی صداقت نہیں
آبروئے سخن خود کو کہتے ہیں وہ
شعر کہنے کی جن میں لیاقت نہیں
جب رگِ جاں میں خود ہی وہ موجود ہے
در بدر اس کو ڈھو نڈوں، ضرورت نہیں
ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول ہے!
کیا وطن کے لئے یہ نحوست نہیں
میں بھی مشتاق ہوں چاندنی کا مگر
چاند کو چھونا میری تو عادت نہیں
جس میں تیرا تصّور نہ ہو رات دن
ایسی جنت کی مجھ کو ضرورت نہیں
خواہشِ خُلد ہو بندگی میں اگر
وہ تجارت ہے مضطرؔ عبادت نہیں
************************* |