* شرافتوں کا اجالے میں گیت گاتا ہے *
شرافتوں کا اجالے میں گیت گاتا ہے
ہوس کی آگ اندھیرے میں جو بجھاتا ہے
شکستہ دل ہے مگر پھر بھی مسکراتا ہے
عجیب شخص ہے گردش کو مہنہ چڑھا تا ہے
بنا کے اپنا دیوانہ وہ روٹھ جاتا ہے
حیا کے پردے میں کیا کیا نہ گُل کھلاتا ہے
اسی امید پہ بیٹھے ہیں ہم لبِ ساحل
کبھی کبھار سہی پیاس تو بجھاتا ہے
لٹاتے کیوں ہو متاعِ حیات تم ان پر
ذراسی بات پہ جو تم سے روٹھ جاتا ہے
یہ عہدِ نو کے اجالے عجیب ہیں مضطرؔ
یہاں تو کانچ سے پتھر بھی ٹوٹ جاتا ہے
*********************************** |