* طلب کی آگ بھڑکا کر دلِ شیخ و برہمن م *
طلب کی آگ بھڑکا کر دلِ شیخ و برہمن میں
نظارہ کر رہے ہیں بیٹھ کر خود آپ چلمن میں
اگر کہہ دوں تو دنیا مجھ کو سولی پر چڑھا دے گی
جو جلوہ میں نے دیکھا ہے تمہارے روئے روشن میں
عجب مکّار دنیا ہے، جو میرا دوست تھا کل تک
اُسے بیٹھے ہوئے دیکھا ہے میں نے بزم دشمن میں
رواں آنکھوں سے آنسوہے تو دل شعلہ بداماں ہے
کرشمہ عشق کا دیکھو لگی ہے آگ ساون میں
ازل ہی سے تفکر کش مکش انساں کی قسمت ہے
نہ جی کر چین دنیا میں نہ مر کر چین مدفن میں
میں مضطر ہوں سہی لیکن میں مضطرؔ افتخاری ہوں
پہن رکھا ہے اک طوقِ غلامی میں نے گردن میں
**************************************** |