* غریبی جب بھی بچوں کو مرے بھوکا سلا *
غریبی جب بھی بچوں کو مرے بھوکا سلاتی ہے
مری ایمانداری کو ضرورت آزماتی ہے
ہماری آگہی بھی کیا غضب کا ظلم ڈھاتی ہے
کہ منظر سامنے رکھ کر کے پس منظر دکھاتی ہے
میاں! ممتا سے وہ سر شار ہے، دیوی کہو اس کو
بدن کو بیچ کر بچوں کو جو روٹی کھلاتی ہے
دھرم پالن کے چکّر میں، پتی ورتا کی گنگا میں
سہاگن عمر بھر خونیں تمنّا میں نہاتی ہے
بڑی خوددار ہے بیٹی ہر اک تہوار میں ہنس کر
وہ اپنی ماںسے بو سیدہ ڈوپٹّے کو رنگا تی ہے
یہ کچّی عمر کی بچّی کسی کے کارخانے میں
سہاگن کے لئے کیوں رات دن چوڑی بناتی ہے
غریبوں کے مقدّر میں تو رونا عام ہے، مضطرؔ
امیری بھی کسی کو خون کے آنسو رُلاتی ہے
************************************* |