* حد بندیٔ حیات جو کی تھی بکھر گئی *
حد بندیٔ حیات جو کی تھی بکھر گئی
تقدیر ہی فریب مرے ساتھ کرگئی
دیکھا ہے رنگ ہم نے عروج و زوال کا
دریا چڑھا اور چڑھی ندّی اتر گئی
چہرے پہ گل کے ایک عجوبہ نکھار ہے
شاید کچھ آج کہہ کے نسیمِ سحر گئی
وائے نصیب حد کا تعین نہ کرسکا
دیکھا کیا جمال جماں تک نظر گئی
منّت کشِ علاج نہ زخم نہاں ہوا
امید ہی پہ عمر ہماری گذر گئی
یہ حسنِ اتفاق ہے جب آئی تیری یاد
چادر مری سکون کی کلیوں سے بھر گئی
سرخ روی اور مضطرِؔ خانہ خراب ہم
محبوب کا کرم ہے کہ قسمت سنور گئی
******************************** |