* جذبۂ دل کو آزمانا ہے *
جذبۂ دل کو آزمانا ہے
خواب میں آپ کو بلانا ہے
تیری یورش کو آزمانا ہے
اے ہوا! پھر دیئے جلانا ہے
جو بھی آیا ہے اس کو جانا ہے
موت تو صرف اک بہانہ ہے
نام ان کا نہ ہو کہیں بدنام
اشک پلکوں میں ہی چھپانا ہے
درد ہو، ٹیس یا مصائب ہو
جو بھی حالت ہو، مسکرانا ہے
عشق کہتا ہے اب یہی یارو
دشت و صحرا مرا ٹھکانا ہے
اب تعصّب کی ظلمتوں میں بھی
الفتوں کے دیئے جلاناہے
******************** |