* نہ قاتلوں کی کمی ہے نہ مقتلوں کی ہے *
نہ قاتلوں کی کمی ہے نہ مقتلوں کی ہے
یہاں تو بات ہمارے ہی حوصلوں کی ہے
ابھی ابھی، ابھی بہہ جائے گا مکاں میرا
سمجھ رہا ہوں میں نیت جو بادلوں کی ہے
چمک دمک سے ہے خیرہ نگاہ ہر اک کی
صدا بھی ہوش رُبا تیرے پائلوں کی ہے
عجیب ترہے کرشمہ تری نگاہوں کا
جدھر بھی دیکھئے اک بھیڑ گھائلوں کی ہے
امیر لوگ ہیں انساں، تو ہم بھی انساں ہیں
ہمیں بھی آرزو اطلس کی مخملوں کی ہے
اگر نقاب اٹھا دینگے وہ تو کیا ہوگا
ابھی سے آنکھ چکا چوندھ منچلوں کی ہے
کہاں نجات بھلا اضطراب سے مضطرؔ
ہمارے سامنے کثرت جو مسئلوں کی ہے
*************** |