* سب آدمی ہیں لیکن، ہے فرق آدمی میں *
سب آدمی ہیں لیکن، ہے فرق آدمی میں
کوئی ہے روشنی میں کوئی ہے تیرگی میں
اخلاق کی حدوں سے جو کل گذر گیا تھا
مشغول اب وہی ہے اصلاحِ زندگی میں
روتے کو ہے ہنساتی، ہنستے کو ہے رُلاتی
ہر طرح کے ہیں نغمے شاعر کی بانسری میں
پہلے پہل تو مجھ کو تھی نا گوارِ خاطر
لطف آرھا ہے لیکن اب ان کی دشمنی میں
رہتا ہے رات دن اک احساسِ اضطرابی
آتا نہیں ہے جب تک اخلاص بندگی میں
جلتا رہا نشیمن کچھ بھی نہ کر سکے ہم
ایسا بھی اک زمانہ آیا تھا زندگی میں
ہر معرکہ میں مضطرؔ ہمت بلند رکھنا
ہونا نہ مبتلا تم احساسِ کمتری میں
******************* |