* قسمت سنور گئی ہے کہ کچھ گل کھلا ہے آ *
قسمت سنور گئی ہے کہ کچھ گل کھلا ہے آج
کترا کے جو نکلتا تھا ہنس کر ملا ہے آج
مخفی تھا جو کہ گنج میں ظاہر وہی ہوا
مدّت کے بعد ’میم‘ کا عقدہ کھلا ہے آج
ممکن نہیں فرار مکافات سے عزیز
جو کچھ ملا ہے تجھ کو، وہ کل کا صلہ ہے آج
تشنہ لبی کا حال کسی کو سنائیں کیا
شکوہ کسی کا ہے، نہ کسی کا گلہ ہے آج
منصف سے اب فضول ہے انصاف کی امید
مضطرؔ ترے خلاف ہی ہر فیصلہ ہے آج
************ |