* شکوہ مجھے ہے تجھ سے نہ کوئی گلہ مجھ *
شکوہ مجھے ہے تجھ سے نہ کوئی گلہ مجھے
تو مل گیا تو مل گیا ہر مدعا مجھے
کشتی بھنور میں ڈوبے گی کیسے بھلا مری
جب دے رہی ہے موجِ بلا حوصلہ مجھے
بہکے قدم نہ میرے نہ حیران میں ہوا
منزل بلا رہی تھی جو دے کر صدا مجھے
دامن بھرا ہے کانٹوں سے فصلِ بہار میں
بدلا چمن پرستی کا اچھا ملا مجھے
پھونکا گیا ہے میرا نشیمن بہار میں
راس آئی فصلِ گل کی نہ اب کے فضا مجھے
ہوتا ہے جب کوئی بھی مصیبت کا سامنا
ایسے میں ڈھانپ لیتی ہے ماں کی دعا مجھے
مضطرؔ کیسے سنائوں میں حالِ غمِ فراق
درد آشنا ملانہ، کوئی ہم نوا مجھے
********** |