* میں رات بھر تڑپتا ہوں ان کو خبر نہی *
میں رات بھر تڑپتا ہوں ان کو خبر نہیں
شاید کہ میری آہ میں اے دل اثر نہیں
ہوتی ہے راہ دل کو، اگر دل سے اے خدا
پھر بات کیا ہے درد، اِدھر ہے اُدھر نہیں
جب تک بشر عیاں ہے رہتا ہے وہ نہاں
مٹتی ہے جب خودی تو سمجھ لو بشر نہیں
ہوتی ہے صبح و شام تو یوں روز ہم نشیں
لیکن غمِ فراق کی ہوتی سحر نہیں
منزل ہے دور، راہ کٹھن، ہے نہ زادِ راہ
تنہا نکل پڑا ہوں کوئی ہم سفر نہیں
در پر ترے یہ سوچ کر سر کو جھکا دیا
اب میرا سر نہیں کہ ترا سنگ در نہیں
کترا رہے ہیں آپ سے مضطرؔ سب آج کیوں
دامن میں شاید آپ کے لعل و گہر نہیں
************ |