* آتشِ الفتِ محبوب میں جلتے رہنا *
آتشِ الفتِ محبوب میں جلتے رہنا
شمع کی طرح سرِ بزم پگھلتے رہنا
کام رہبر کا ہے منزل پہ رکے یا نہ رکے
میں تو رہرو ہوں مرا کام ہے چلتے رہنا
ایک دن آکے قدم چومے گی منزل خود ہی
شرط ہے جانبِ منزل یوں ہی چلتے رہنا
وقت کے ہاتھ جو روپوش تجھے ہونا پڑے
اشک بن کر مگر آنکھوں سے نکلتے رہنا
کہیں بزدل نہ سمجھ لیں تمہیں دنیا والے
کھاکے ٹھوکر بہر اک گام سنبھلتے رہنا
مجھ کو بے چین کئے دیتی ہے شوخی تیری
لمحہ لمحہ ترے تیور کا بدلتے رہنا
عشق کی آگ نہ پانی سے بجھے گی مضطرؔ
ہے عبث آنکھ سے آنسو کا نکلتے رہنا
********* |