donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Wasim Haider Hashmi
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* تاکہ اس کے بیکراں غم کو کچھ آجاے ق *

تاکہ اس کے بیکراں غم کو کچھ آجاے قرار
محل کی صورت ہے یہ، دنیا کے محلوں کا ہے تاج
جو بھی جاتا ہے زیارت کے لئے دیتا ہے باج
ایک دن چاہا کہ بدلوں میں بھی دل کا ذائقہ
یہ تصور لے کے پہنچا دوسرے دن آگرہ
دنگ تھا مَیں دیکھ کر اس محل کا حسن و جمال
کیا مغلیہ سلطنت کا عکس تھا اس کا جلال
صبح سے تا شام، اس کا حسن میں دیکھا کیا
رفتہ رفتہ نقش اس کا دل میں یوں اُترا کیا
جیسے کہ آبِ رواں کو چیر کا اُترے کِرن
چوم لے آہستہ پھر، دریا کا لہراتا بدن
شام جب آئی تو تھک کر میں وہیں پر سو رہا
اور اُسی عالم میں پھر خوابوں کی دنیا میں گیا
خواب میں پہنچا میں، جب ملکہ کے مدفن کے قریب
واں پہنچ کا آنکھ نے دیکھا مری منظر عجیب
پھر ہوئی ممتاز، کچھ ایسے برامد قبر سے
چودھویں کا چاند ہو، جیسے برامد ابر سے
پہلے تو کچھ دیر میں، ممتاز کو دیکھا کیا
پھر مودب، دست بستہ، میں نے اس سے یہ کہا
واہ وا، کیا خوب قسمت دی تجھے اﷲ نے
شاہِ دوراں کی محبت دی تجھے اﷲ نے
تیرا دیوانہ، ترا شیدائی تھا اک بادشاہ
رکھتا تھا تجھ پر ہمیشہ، وہ محبت کی نگاہ
بعد مردن عشق کی ایسی کہانی دے گیا
ملک کو ہے ناز جس، پر وہ نشانی دے گیا
سن کے میری بات، یہ ممتاز نے مجھ سے کہا
تاج کی تعریف پر، سو بار تیرا شکریہ
مَیں بھی کہتی ہوں کہ ہاں، یہ حسن کی تصویر ہے
یہ فقط میری نہیں ہے، ہند کی جاگیر ہے
فن تعمیرات میں، اس کا کوئی ثانی نہیں
اس طرح کے حوصلے کا، اب کوئی بانی نہیں
نور بن کر، سب کی آنکھوں میں اُتر جاتا ہے یہ
چاندنی میں کچھ زیادہ ہی نِکھر جاتا ہے یہ
تم تو شاعر ہو، تمھیں ہر بات کا ہو گا شعور
بولا وہ تھا بادشاہِ وقت کا کیسا غرور
بعد مردن دے کے اس نے مجھ کو تحفہ پیار کا
ہاتھ ہی کٹوا لیا، اِس تاج کے معمار کا
یہ فریب سلطنت کی، واہ کیا الٹی ہے چال
دی گئی پتھر کے ٹکڑوں سے، محبت کی مثال
عشق سے شاہی روایت کا بھلا کیا واسطہ
عشق ہے انسانیت کی راہ کا اک سلسلہ
تاج تو بے مثل سے ایوان کی تعمیر ہے
یہ مغلیہ سلطنت اور شان کی تشہیر ہے
عشق کی تعمیر کا، خونِ جِگر معمار ہے
جان تک قربان کرنا، عشق کا معیار ہے
عشق کے جذبات کا، کیا واسطہ جاگیر سے
سچ کہو تو عشق تھا، رانجھےؔ کو اپنی ہیرؔ سے
چیر کر دیکھو کبھی، آشفتہ جھیلمؔ کا جِگر
اُس میں بھی آباد ہے، اُجڑی محبت کا نگر
کاش، پتھر موم کرتا، کوئی میرے واسطے
کاش، صحرائوں میں پِھرتا، کوئی میرے واسطے
ہائے قسمت، سوہنیؔ نا کوئی عذراؔ بن سکی
ناہی شیریں،ؔ نے کسی مجنوؔ کی لیلیٰؔ بن سکی
میں وہ طائر ہوں کہ جس کے پَر بنا کر خوشنما
کر دیا صیاد نے، دامِ اسیری سے رِہا
نام عاشق کا کوئی، جُڑتا جو میرے نام سے
ایسی صورت بچ گئی ہوتی، میں اِس الزام سے
مرمریں مدفن سے بیکس، کسِ طرح پائے نجات؟
کون ہے جو اِس گُھٹن سے مجھ کو دِلوائے نجات
سرد ہاتھوں پر سنبھالے ایک پتھر کی چٹان
مضطرب، بے چین، بے پر، اور صدیوں کی تکان
پاس تونے بھی مری محرومی کا رکھا نہیں
نحویت میں اس تلذذ کا عمل اچھا نہیں
چشم پوشی کی ہے تونے بھی مرے جذبات سے
اب تلک کیا تو نہیں واقف مرے حالات سے
میری محرومی کو افسانہ بنانا کیا ضرور
عقل سادہ کار، اور رنگیں ترانا کیا ضرور
سادگی سے تو بیاں کرتا جو میرا مدعا
میں بھی کرتی تیرے حق میں، حق تعلی سے دعا
پاس ناموسِ محبت کا نہیں تجھ کو وسیمؔ
نیزہ خامہ سے زخمی کیوں کیا مجھ کو وسیمؔ
مجھ کو اِک الزام دے کر تونے بھی رُسوا کیا

 وسیم حیدر ہاشمی،
MG1/4, Kabeer Colony,
BHU Campus,
Varanasi-221005

 

*********************

 

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 491