سلام
سید اقبال رضوی شارب
خونِ دل لفظوں سے بہہ نکلے کلام ایسا تو ہو
شعر میرا گن گنائیں خاص و عام ایسا تو ہو
چھوڑ کر امّت نہ جو بھاگے امام ایسا تو ہو
مشکلیں جتنی پڑیں سب کر لے رام ایسا تو ہو
منھ سے تو ساحر کہیں لیکن امانت کے طفیل
ذہن و دل دونوں کہیں خیرالانام ایسا تو ہو
دیکھ کر دنیا کہے انسان کہتے ہیں اسے
خواہشِ مولا ہے یہ میرا غلام ایسا تو ہو
یا علی پر دشت میں پھر یا علی پر بحر میں
جو ہے سچ مچ کا امام وہ تیزگام ایسا تو ہو
تھا بہت زائر کی قسمت پر ملک کو اضطراب
آنکھ خیرہ ہو کے رہ جایئں مقام ایسا تو ہو
زیست فانی دہر فانی غیرِ فانی بس خدا
ہستی میری پھر بھی پائے کچھ دوام ایسا تو ہو
حمد ہو کچھ نعت ہو کچھ منقبت کی بات ہو
داد دیں مخدومئ عالم سلام ایسا تو ہو
جتنی چاہو تم چڑھا لو حبِ مولا کی شراب
پی کے جسکو نکھرے ایماں کوئی جام ایسا تو ہو
جب امامِ وقت فہرستِ وفاداراں لکھیں
اسمیں شارب ہو کہیں پر تیرا نام ایسا تو ہو
----------------------