غزل
سید اقبال رضوی شارب
بیف کے نام پہ ہوتی ہے جو من مانی آج
آہ کس درجہ کی ہے بے سر و سامانی آج
فکر معیوب ، گراں لہجہ زمیں بوس الفاظ
کچھ بھرم عہدے کا رکھ منصبِ سلطانی آج
ملک میں حبس کے ماحول سے نالاں ہیں جو
بات کہنے کی نہیں ہے انہیں آسانی آج
عام شہری کی تو کیا بات ہے ،حالات یہ ہیں
دودھ کی مکّھی ہیں جتنے بھی ہیں اڈوانی آج
بعد مرنے کے بھی ماں بہنیں نہیں ہیں محفوظ
کس قدر پست ہوئ فطرت انسانی آج
ان کے ہر فعل میں کچھ بغض و حسد ہے شارب
بس مرے سر سے گزر جایگا پھر پانی آج
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸