غزل
ہم سے ملتے تھے ستارے آپ کے
پھر بھی کھو بیٹھے سہارے آپ کے
آسمانِ ہجر پر ہیں ضوفشاں
آنکھ میری اشک سارے آپ کے
کیسا جادو ہے سمجھ آتا نہیں
نیند میری خواب سارے آپ کے
ہم سے شاید معتبر ٹہری صبا
جس نے یہ گیسو سنوارے آپ کے
آپ کی نظر ِ کرم کے منتظر
کب سے بیٹھے ہیں دوارے آپ کے
کوئی اس کی آنکھ کو بھائے گا کیوں
جس نے دیکھے ہوں نظارے آپ کے
بِن ترے سانسیں بھی اب چلتی نہیں
ہر گھڑی چاہیں ، اشارے آپ کے
مسکرا کر دیکھئے تو ایک بار
کہکشاں ، یہ چاند تارے آپ کے
جھوٹ ہے مفتی بھلا بیٹھے ہو سب
کیوں تھے پلکوں پر ستارے آپ کے
******************