غزل
بیٹھ کر ساتھ ساتھ کیا ہوگا
جب دلوں میں ہی فاصلہ ہوگا
جس کا کوئی نہ ناخدا ہوگا
اس کا ساتھی فقط خدا ہوگا
حوصلوں کا ہے امتحاں پھر سے
آج پھر ان کا سامنا ہوگا
آج پھر ان کو جیت جانا ہے
آج پھر ہم کو ہارنا ہوگا
شام سے پہلے لوٹ جاؤ گھر
کوئی راہ تیری دیکھتا ہوگا
ہم کو اف کا بھی اِذن مل نہ سکا
وہ کہانی ، سنا ہوگیا ہوگا
میں تڑپتا ہوں جس کی یادوں میں
کچھ تو بے چین وہ ہوا ہوگا
ترے ہوتے ہوئے خدا کتنے
اے خدا تجھ میں حوصلہ ہوگا
اوٹ سے ظلمتوں کی دیکھو گر
کوئی سورج ، نکل رہا ہوگا
دن تو کیسے بھی بیت جائے گا
سوچنا رات کا ہے کیا ہوگا
بدگماں کرنے جارہا ہے رقیب
آج پھر میرا تذکرہ ہوگا
آج جو ٗ راہزنی میں یکتا ہے
دیکھنا کل یہ راہنما ہوگا
بجھ گیا آخری دیا تو پھر
رقص ظلمت کا دیکھنا ہوگا
عشق کا کاروبار چل جائے
پھر کہاں کام دوسرا ہوگا
ایک سے ایک ہونگے دنیا میں
مفتی ہم سا نہ دوسرا ہوگا
*****************