غزل
جب سے وہ چشمِ تر میں رہتا ہے
گھر ستاروں بھرا سا رہتا ہے
ان کے عارض سے روشنی لے کر
چاند خود کو حسین کہتا ہے
دل کوسمجھاؤں کیسے نہ دھڑکے
دل دھڑکتا ہے ، کب سمجھتا ہے
کو ئی تم سا ہے ، یا کہ سایہ ہے
جو مرے ساتھ ساتھ رہتا ہے
روشنی گو نہیں ہے گھر میں مرے
یاد سے تیری گھر چمکتا ہے
کوئی دن ہے کہ مارا جائے گا
جس کی باتوں سے حق چھلکتا ہے
چلتا ہے لڑکھڑا کے جب مفتی
پارسا پارسا سا لگتا ہے
*****************