غزل
ہمارے زخم کے سب پھول مسکرانے لگے
گذر گئے ہیں جو لمحے وہ یاد آنے لگے
ہمارے اس دلِ مضطر کی خیر ہو یا رب
تصور میں اب پھروہ آنے جانے لگے
نہ لینا چاہئے احسان ایسے انساں کا
جو احساں کر کے ہمیشہ اسے جتانے لگے
اب ایسے شخص کے ایمان کا بھروسہ کیا
جو آدمی کو ہی یارو! خدا بنانے لگے
خداہی جانے کہ اب ان کا حال کیا ہوگا
گھروندے خوابوں کے کچھ لوگ پھر بنانے لگے
جو رہنمائی کی خاطر جہاں میں آئے تھے
قدم انہیں کے زمانے میں لڑکھڑانے لگے
ہمارے زیرِ عنایت جو رہ رہے تھے کبھی
سراجؔ آنکھ وہی لوگ اب دکھانے لگے
سراجؔ دہلوی
******************