غزل
عمر کا ہر سال بس آتا رہا جاتا رہا
بن کے دیمک جو ہماری زندگی کھاتا رہا
جب کہ میری زندگی بھی کر نہیں پائی وفا
تیرے میرے درمیاں پھر کون سا ناطہ رہا
ایک مورت ٹوٹ کے بکھری مرے احساس کی
کیسی پوجا کیا عبادت ،سب بھرم جاتارہا
خود جلے اور جل کے سب کو دیتا ہے جو روشنی
کیوں اندھیرا اس دئیے کے ہی تلے چھاتا رہا
ہم بنے سیڑھی مگر ہر بار نیچے ہی رہے
رکھ کے ہم پر پاؤں وہ اونچائیاں پاتا رہا
زندگانی کی کسک گیتوں میں میں نے ڈھال دی
گیت میرے غیرکی دھن پہ ہی وہ گاتا رہا
حادثے جیون میں آئے جانے کتنے ہی سراجؔ
حوصلوں کے گیت میں ہر حال میں گاتا رہا
سراج دہلوی
********************