ھزل
اپنے ہم زلف کی ثروت نہیں دیکھی جاتی
ان میاں بیوی کی الفت نہیں دیکھی جاتی
میرے سالوں نے چڑھا رکھا ہے سر پر اُس کو
اُس کی یہ اِکسٹرا عزت نہیں دیکھی جاتی
وہ جو آ جائے تو پکتے ہیں مرغن کھانے
میری ہو دال سے خدمت نہیں دیکھی جاتی
جب بڑی کار میں نکلے وہ فراٹے بھرتا
ہم سے سائیکل کی مرمت نہیں دیکھی جاتی
ہر بڑے چھوٹے کو دولت ہے اسی کی پیاری
اور کسی سے میری غربت نہیں دیکھی جاتی
ساس بھی اُس پہ ہوئی جاتی ہے صدقے واری
ہے سُسَر کو بھی جو چاہت نہیں دیکھی جاتی
لے کے رکھا ہے قطر کا جو اقامہ اُس نے
مجھ سے وہ شان، وہ سطوت نہیں دیکھی جاتی
شاعری اُس کی ہے پہچان زمانے بھر میں
اُس کا یہ نام یہ شہرت نہیں دیکھی جاتی
ہر کوئی صبح و مساء اُس کے ترانے گائے
نازؔ یہ شان یہ شوکت نہیں دیکھی جاتی
٭٭٭٭٭٭
شوکت علی نازؔ ۔ قطر