* لہو میں تربتر خوابوں کا بستر یاد ک *
لہو میں تربتر خوابوں کا بستر یاد کرتا تھا
وہ اک فوجی تھا اور اپنا مقدر یاد کرتا تھا
ہوا، بادل، پرندے اور موسم سب ہی شاہد تھے
کوئی پیاسا تھا جس کو اک سمندر یاد کرتا تھا
اسے محبوب تھی مٹی کی خوبشو میں بسی دنیا
دیارِ غیر میں رہ رہ کے وہ گھر یاد کرتا تھا
بھلا دیتی تھی لیکن بھوک سب کچھ یہ حقیقت ہے
وہ مکتب میں ملے اسباق اکثر یاد کرتا تھا
الگ یہ بات کہ جنگل میں پھر سے لوٹ آیا ہے
حویلی والی لڑکی کو کبوتر یاد کرتا تھا
٭٭٭
|