* یہ چند موتی، وفا کے موتی *
وفا کے موتی
یہ چند موتی، وفا کے موتی
مرے لیے بھی سنبھال رکھنا
کہ جانے پھر زندگی کی راہیں
کہاں کہاں خاک کو اڑائیں
جو ہوسکے تو۔۔۔!
مری وفائوں کے پھول تم بھی
کتابِ عمرِ رواں میں رکھنا
بھلا کے مجھ کو نئے زمانے میں دل لگانا
مری وفائوں کے پھول تم کو صدا نہ دیں گے
کبھی ترا راستہ نہ لیں گے
مگر یہ عمرِ رواں ہے آخر—!
کہیں تو اِس کی بھی شام ہوگی
کبھی جو فرصت ملے تو پھر سے
کتابِ عمرِ رواں کو پڑھنا
مری وفائوں کے پھول تم کو وہیں ملیں گے
وہی اچھوتی مہک ملے گی
گئے دنوں کی اُداس برکھا
برس کے میرا سراغ دے گی
یہی سمجھ کر
مرے لیے بھی سنبھال رکھنا
یہ چند موتی، وفا کے موتی
******
|