* آج پھر دل نے کی ہیں تدبیریں *
آج پھر دل نے کی ہیں تدبیریں
ٹوٹنے ہی کو ہیں یہ زنجیریں
عمر بھر کا خمار بخشا ہے
دل پہ لکھی گئیں وہ تحریریں
سامنے بیٹھ کر نہ پوچھیں آپ
کیوں دغا دے گئی ہیں تقدیریں
کس سبب سے میں ٹھہرا دیوانہ
لکھنا چاہوں تو لکھ دوں تفسیریں
میرا دل اِک مکان خالی ہے
آتی جاتی رہی ہیں تصویریں
خواب کے جیسے کھو گیا اِک شخص
در بدر ڈھونڈتی ہیں تعبیریں
تیرے دامن میں جذب ہوجائے
اشکِ تر کو ملیں وہ توقیریں
****
|