تنہائیوں کے چاک پہ اب کیا بنائیے
خواب و خیال میں کوئی تجھ سا بنائیے
تکمیلِ گلستاں نہیں پھولوں پہ منحصر
لازم ہے ساتھ شاخ پہ کانٹا بنائیے
تعبیر آپ ان کے لیے بیقرار ہو
نقش و نگارِ خواب کو ایسا بنائیے
دنیا کو بھی پتہ چلے، دنیا ہے چیز کیا
دنیا سے ہٹ کے اور ہی دنیا بنائیے
دھندلا سا ایک عکس سرِ آئنہ ہوں میں
مجھ کو پکار کر مرا چہرہ بنائیے
ساحل کو کاٹ کھائے نہ دریا کی تیز لہر
پیڑوں کو کاٹ کر نہ سفینہ بنائیے
فن پر اگر ہے ناز تو پھر ایسا کیجیے
ہر بار ہی مجھے مرے جیسا بنائیے
قدروں کی بات کیجیے گا آپ بعد میں
پہلے تو اپنا ٹھیک سے حلیہ بنائیے
قدرت نہیں کہ پھونک سکیں روح تو فصیح
مٹی سے بے طرح نہ پرندہ بنائیے
شاہین فصیح ربانی
*********************