غزل
سرِ ساحل رہے گا یہ سکوں کا تک
ٹھہرتا ہے ہواؤں کا جنوں کب تک
کسی لمحے بھی گر سکتی ہے کہنہ چھت
سہاریں گے یہ بوسیدہ ستوں کب تک
مرے بچو! مرا فن منتقل کر لو
نجانے اور میں بوڑھا جیوں کب تک
سنا ہے وقت اک جیسا نہیں رہتا
رہے گا یہ مرا حالِ زبوں کب تک
درختوں کی طرح خاموش بیٹھے ہو
یہاں میں داستاں اپنی کہوں کب تک
سوالوں میں گھری ہے زندگی میری
کہاں کب کیسے کتنا کس کو کیوں کب تک
یہ لاشیں کب تلک مجھ کو اٹھانی ہیں
رہے گا میرا پرچم سرنگوں کب تک
فصیح آخر یہ چشمے سوکھ جائیں گے
بہے گا میری آنکھوں سے یہ خوں کب تک
شاہین فصیح ربانی
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸