غزل
اپنا وجود ان کی پناہوں میں رکھ دیا
جگنو کو آفتاب کی بانہوں میں رکھ دیا
خوشبو سمجھ کے اس کو فضاؤں میں رکھ دیا
میں نے تمہارا نام ہواؤں میں رکھ دیا
اس کو بھی تھا یہ شوق کہ سجدہ کروں اسے
مٹی کا بت بنا کے خداؤں میں رکھ دیا
جب آندھیوں کا سامنا لازم ہوا تو پھر
اپنا چراغ ہم نے ہواؤں میں رکھ دیا
کھانا جو ایک بھوکے کو میں نے کھلا دیا
اس نے خلوص اپنا دعاؤں میں رکھ دیا
آزادیوں کا لب کی رکھا اس طرح خیال
خاموشیوں کو اپنی صداؤں پہ رکھ دیا
شہر یار جلال پوری
موبائل:9451630555