غزل
رہے ہر حال میں جو مطمئن جینا اسی کا ہے
پلائے جس کو خود پیر مغاں پینا اسی کا ہے
نگہ کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اُسی کا ہے
تصوراس کا رکھ دل میں جو ہے دیدار کا جو یا
لگائے منہ جو آئینہ کو آئینہ اسی کا ہے
یہ بزم میںہے یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھائے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
جہاں چاہے بشر کو لے کے جائے ہمت عالی
جسے کہتا ہوں زاہد عرش یہ زینا اسی کا ہے
مقدر یا مصفا جس کو یہ دونوں ہی یکساں ہوں
حقیقت میں وہی میخوار ہے پینا اسی کا ہے
تماشا دیکھنا غیروں کے گھر کو پھونک کر کیسا
جو اپنی آگ میں جل جائے خود کینا اُسی کا ہے
مبارک ہے یہ شب پی پی کے میخانہ میں اے مستو
گزارے جو شب آئینہ آدنیا اُسی کا ہے
اُمیدیں جب بڑھیں حد سے طلسمی سانپ میں راہد
جو توڑے یہ طلسم اے دوست گنجینا اُسی کا ہے
کدورت سے دل اپنا پاک رکھ اے پیر پیری میں
کہ جس کو منہ دکھانا ہے یہ آئینہ اُسی کا ہے
خدا لگتی دیانت سے کہے جو شاد کے حق میں
دعاگوبھی بتویہ پیروبرینا اسی کاہے
٭٭٭